The Timeless Legacy of Chiniot
شہر چنیوٹ، وہ مدھم روشنی جو صدیوں کی مہکتی ہواؤں میں اپنی رونق برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پتھر کا ہر ٹکڑا، لکڑی کا ہر نقش، چناب کی ہر لہر، اور شہر کے ہر قلعے کا ملبہ ایک گیت سناتا ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ، محبت، خدمت اور فن کی داستان ہے جو پنجاب کے دل میں واقع دریائے چناب کے ساحل پر سجی ہوئی ہے۔ یہ سرزمین صدیوں پر محیط تاریخ، تہذیب اور عشق کے رنگوں سے سجی ہوئی ہے۔ یہ وہ چناب ہے جو داستانوں کی وسیع جاگیر سیراب کرتا ہے، جس کے پانیوں میں سوہنی کا گھلتا ہوا گھڑا بھی ہے اور رانجھے کی لازوال داستان بھی۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو چنیوٹ صرف ایک شہر نہیں بلکہ تہذیبوں کا امین دکھائی دیتا ہے۔ اس شہر کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔ ایک مقبول روایت کے مطابق، کسی زمانے میں شہزادی چندن، جو مردانہ لباس میں شکار کی شوقین تھی، شکار کرتے ہوئے چناب کنارے اس مقام پر آئی۔ قدرتی حسن اور پہاڑوں کو چیر کر گزرتی چناب کی لہروں کی مستی نے اسے مسحور کر دیا۔ اس نے یہاں ایک آرام گاہ بنانے کا حکم دیا جس کا نام “چندن یوٹ” رکھا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نام “چنیوٹ” بن گیا۔ کچھ کے مطابق، شہر کا نام چندن خان (ملک مچھے خان کی بہن) سے منسوب ہے جو کھوکھر راجپوت قبیلے کے حکمران تھے۔ بعض محققین کے مطابق، نام دریائے چناب کی جغرافیائی پوزیشن پر مبنی ہے، جہاں لفظی معنی “چن” (دریائے چناب) کے “اوٹ” (پار/اس پار) کے ہیں۔ اس طرح ‘چنیوٹ’ وجود میں آیا۔ کئی حوالے رامائن کے شہر “چنی وٹ” کو بھی آج کا چنیوٹ گردانتے ہیں، جبکہ کچھ اس کا تعلق البیرونی کی کتاب “الہند” سے جوڑتے ہیں۔ تاہم، شہر کا باقاعدہ تذکرہ “تزک بابری” میں ملتا ہے۔
چینی سیاح ہیون سانگ(Heun Tasang) نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کا تذکرہ اہم تجارتی راستے کے طور پر کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ جگہ پاٹھ شالہ (تعلیمی مرکز) ہوا کرتی تھی۔ چنیوٹ شاید وہ دانش گاہ بھی رہا ہے جہاں پنجاب کی تین قدیم جامعات میں سے ایک علم کی شمع روشن کرتی تھی؛ اجودھن اور ٹیکسلا اس علمی شرافت کے باقی دو نشان تھے۔ 1999 میں پہاڑیوں سے دریافت ہونے والی یونانی دور کی اشیاء اور تصویری تحریریں ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ آثار 326 قبل مسیح کے معلوم ہوتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شہر کہیں جنگجوؤں کا نشانہ بنا، تباہ ہوا، اور پھر دوبارہ بسایا گیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق، 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر کو فتح کیا۔ دو سال بعد، چندر گپت موریا نے اس پر قبضہ جمایا جو 30 قبل مسیح تک قائم رہا۔ راجہ داہر کا بھائی راجہ چچ بھی یہاں کا حاکم رہا۔ محمود غزنوی، بابر، شیر شاہ سوری، جہانگیر، اور راجہ رنجیت سنگھ جیسے بڑے ناموں نے بھی اس شہر پر حکومت کی۔ ہر حملے اور فتح کے بعد یہ شہر پھر سے ابھرا اور آباد ہوا۔ بالآخر 1849 میں یہ برطانوی سلطنت کے زیر تسلط آیا اور یہ تسلط آزادی تک قائم رہا۔ چنیوٹ کی فضا آج بھی اپنے اندر نشیب و فراز کی ان داستانوں کو سموئے ہوئے ہے۔
شاہ جہاں کے دور میں، جب معماروں اور فنکاروں کو کھل کر سانس لینے کا موقع ملا، تو چنیوٹ اپنی خوشحال ترین حالت کو پہنچ گیا۔ اس سنہری دور کی ایک یادگار شاہی مسجد چنیوٹ ہے، جسے نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کروایا۔ نواب سعد اللہ خان شاہ جہاں کے دور میں وزیر اعظم ہندوستان کے منصب پر فائز رہے اور ان کا تعلق چنیوٹ کے نواحی گاؤں پتراکی سے بتایا جاتا ہے۔ وہ 1591 میں جٹوں کی ایک برادری تھہیم میں پیدا ہوئے اور دسمبر 1641 میں مغل دربار کا باقاعدہ حصہ بنے۔ (حسن معراج نے اپنی کتاب “ریل کی سیٹی” میں نواب سعداللہ خان کا تعلق جپہ برادری سے لکھا ہے)۔ ان کے فرزند ارجمند، حفظ اللہ خان، بھی عظیم المرتبت امیر تھے اور دور عالمگیری میں سندھ اور کشمیر کے حاکم بااختیار رہے۔ نواب سعد اللہ خان نظام الملک آصف جاہ اول (ریاست حیدرآباد کے بانی اور پہلے نظام) کے نانا تھے، کیونکہ نظام کی والدہ محترمہ صفیہ خانم بیگم درحقیقت سعداللہ خان کی صاحبزادی تھیں۔ اس شجرہء نامور کے شاخسانے دور تک پھیلے: وہ بیجاپور کے نواب، متوسل خان کے پدری بزرگ بھی تھے، اور تیسرے نظام حیدرآباد مظفر جنگ کی رگوں میں بھی ان کا عالی خون دوڑتا تھا۔ اس دور کی ایک اور یادگار شاہ برہان کا مزار بھی ہے جو نواب سعداللہ خان نے تعمیر کروایا۔
شاہ جہاں کے دور کی ایک اور اہم شخصیت نواب وزیر خان کا تعلق بھی چنیوٹ سے تھا۔ ان کا اصل نام حکیم علم الدین انصاری تھا۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جہانگیر کے عہد میں چنیوٹ میں ایک حکیم (طبیب) کی حیثیت سے کیا۔ ایک واقعے نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا جب انہوں نے نور جہاں بیگم (جہانگیر کی محبوب ملکہ) کے پاؤں پر نمودار ہونے والے ناسور کا کامیابی سے علاج کیا۔ شفایابی پر، شہنشاہ جہانگیر نے ایک تقریب میں حکیم علم الدین کی مہارت کو سراہا اور انہیں ایک لاکھ مالیت کی خلعتیں اور سات لاکھ روپے نقد انعام دیے۔ نور جہاں نے اپنے جسم پر موجود سارا زیور بطور انعام پیش کیا اور انہیں “نواب وزیر خان” کا خطاب دیا گیا۔ بعد ازاں نواب وزیر خان نے بطور گورنر بھی خدمات سرانجام دیں۔ شاہ جہاں کے دور کی چنیوٹ سے جڑی ایک اور اہم شخصیت قاضی محمد یوسف تھے، جو مملکت کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) تھے اور چنیوٹ کے قاضیوں کے جد امجد (موسس اول) قرار دیے جاتے ہیں۔ قاضی یوسف شریعہ اسلامی اور فقہ کے عظیم عالم اور اسلامی قوانین کے مفسر تھے۔
چنیوٹ کا ایک اور معتبر حوالہ صوفیاء اور بزرگ ہیں۔ حضرت میاں میر کے ہم عصر حضرت شاہ برہان، جنہوں نے بے شمار غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، ان کا مزار بھی چنیوٹ میں واقع ہے۔ حضرت اسماعیل شاہ بخاری، جو حضرت جلال شاہ بخاری کی اولاد میں سے تھے، تبلیغ اسلام کے لیے جھنگ آئے اور پھر چنیوٹ میں قیام کیا۔ ان کا مزار بھی چنیوٹ میں واقع ہے جس کی تعمیر 1950 میں مکمل ہوئی۔ پانی پت میں پیدا ہونے والے حضرت شاہ شرف الدین، بو علی قلندر کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ اپنے عہد کے عظیم عالم دین تھے۔ آپ دہلی میں رہے اور پھر چنیوٹ میں آکر چناب کنارے ڈیرے لگائے۔ بارہ سال تک یہیں خدا کی حمد و ثناء بیان کرتے گزار دیے۔ آپ کی چلہ گاہ آج بھی دریائے چناب کے کنارے موجود ہے اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔ چنیوٹ کا ایک اور معتبر حوالہ حضرت شیخ بہلول قادری ہیں۔ چناب وادی کے اس عظیم ولی کو شاہ بہلول کے نام سے شہرت ملی۔ موضع بہلول، تحصیل لالیاں، ضلع چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے بہلول دریائی قوم جٹ سپرا ولی کامل بزرگ تھے۔ ان کا مزار ٹبہ شاہ بہلول پنڈی بھٹیاں میں ہے۔ شاہ جہان کے دور حکومت میں ان کے دو بیٹے محمد علی اور ولی محمد جنوبی ہند کے شہر گلبرگہ چلے گئے۔ یہ لوگ ذات کے جٹ تھے لیکن بہلول دریائی کی وجہ سے خاندان اولیاء میں شمار ہوتاتھا اس لیےمحمد علی کی شادی مشہورصوفی بزرگ حضرت خواجہ حسین گیسودراز کے خادم خانقاہ حسن بخت کی صاحبزادی زینت بیگم المعروف مجید بیگم سے ہوئی۔ جن کے بطن سے چار بیٹے ہوئے۔ جن میں سے ایک فتح محمد تھے۔
فتح محمد کے ہاں 1720 میں ایک بیٹا حیدر علی پیدا ہوا۔ جو ریاست میسور کا سلطان ہوا۔
حیدر علی کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد ان کی شادی نواب سعادت علی کی بھتیجی فاطمہ عرف فخرالنساء سے ہوئی جو نواب سعداللہ خان کی نواسی بھی تھیں۔ حیدر علی اور فاطمہ کے ہاں 1750 میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا یہ قول کہ “شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” اسے امر کر گیا۔ سائیں سکھ کا مزار بھی چنیوٹ میں واقع ہے، جو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا۔ سائیں سکھ کے نام سے مقبول شیخ احمد ماہی کا پیغام محبت تھا۔ آج ان کے مزار کو شیش محل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چنیوٹ میں اولیاء اللہ کے درجنوں مزارات ہیں، جہاں اہل عقیدت اپنی مرادیں لیے دعا کرنے جاتے ہیں۔
چنیوٹ کی سرزمین سے جڑی ایک دردناک داستان عمر حیات محل (گلزار منزل) کی ہے۔ شیخ عمر حیات، انسانوں کے ایک باکمال گروہ (چنیوٹ کے مشہور تاجر شیخ برادری) سے تعلق رکھتے تھے۔ چنیوٹ سے جڑے دیہی علاقوں میں تو زیادہ تر جٹوں کی مختلف قومیں آباد ہیں، جبکہ شہر میں چنیوٹ کی نسبت سے مشہور شیخ آباد ہیں۔ حسن معراج نے ان شیخوں کو انسانی قابلیت کا معجزہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب (اخوت والے) نے اپنی کتاب “کامیاب لوگ” میں چنیوٹ کی شیخ برادری کے کاروباری اصولوں اور فلسفے کو سراہا ہے۔ یہ مایا داس تاجر اپنی محنت، کاروباری فطانت اور محتاط رویوں کے سبب پچھلے دو سو سالوں سے برصغیر کی تجارت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے اور چنیوٹ میں گھر بناتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے پاک سرزمین سے اپنا ناتا جوڑ لیا۔ عمر حیات بھی اسی باکمال گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔، اپنے وقت کے سخی تھے۔ شام کو بازار میں بیٹھ کر وہ ایک طرف سے پیسے بانٹنا شروع کرتے تو شام ڈھل جاتی مگر دام نہ ڈھلتے۔ ایک روز، فنکار الہی بخش پرجھہ کا وہاں سے گزر ہوا، جس کے فن کی تعریف سن کر عمر حیات متاثر ہوئے۔ عمر حیات نے پرجھہ کو بلا کر کہا کہ وہ ایک محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو دولت اور خوبصورتی کا مرقع ہو۔ یوں 1922 میں اس محل کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ آٹھ سال کے عرصے اور چار لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس حیرت کدے کو کچھ لوگ عمر حیات کی نسبت سے یاد رکھتے ہیں اور کچھ اسے عمر حیات کے بیٹے گلزار سے موسوم کر کے گلزار منزل کہتے ہیں۔ چودہ مرلے پر بنے اس محل کو لکڑی کی شاعری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی عمر حیات انتقال کر گئے۔ در و دیوار پر چھائی افسردگی کو دور کرنے کی غرض سے عمر حیات کی بیگم نے بیٹے گلزار کا بیاہ رچا لیا۔ شادی کی رات پہلی بار محل پوری طرح سجایا گیا۔ پرجھہ نے روشنیوں میں گھرے اس گھر کو دیکھا اور آنکھیں نم کر دیں۔ ولیمے کی صبح قیامت ٹوٹ پڑی جب دولہا (گلزار) غسل خانے میں مردہ حالت میں پایا گیا۔ عمر حیات کی بیوہ نے جنازہ اٹھانے سے انکار کر دیا اور گلزار محل کے دالان میں ہی بیٹے کو سپرد خاک کیا۔ بیٹے کی موت کے ایک ہی سال بعد ماں بھی انتقال کر گئی اور وصیت کے مطابق اسی دالان میں دفن ہوئی۔ دالان میں موجود کٹہرے میں یہ دو قبریں وقت کے قرآن پر سورہ عصر کی تفسیر ہیں: “بے شک انسان خسارے میں ہے”۔ خاندان والوں نے محل کو منحوس قرار دے کر یہاں رہنے سے انکار کر دیا۔ کچھ عرصہ ملازمین یہاں رہتے رہے اور پھر 1940 میں انجمن اسلامیہ نے یہاں ایک سکول کھول دیا۔اس کے بعد بعد شہر کی ایک مخیر ہستی، شیخ محمد امین، نے یہاں یتیم خانہ کھلوایا۔ یوں یہ محل، جو کبھی دولت اور فن کا استعارہ تھا، وقت کے ہاتھوں ماضی کی ایک ویران کہانی بن گیا۔ تاہم، یتیم بچوں کی ہنسی اور معصومیت نے اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا۔ بعد ازاں، ناجائز قبضے کے ایک دور کے بعد، ڈپٹی کمشنر جھنگ اطہر طائر نے اس ورثے کی حفاظت کا اہتمام کیا اور اسسٹنٹ کمشنر چنیوٹ ڈاکٹر امجد ثاقب نے عمارت کی پرانی طرز پر مرمت کروائی۔ اب یہ ایک لائبریری ہے۔ اوپر کی دو منزلیں، جو محل کے حسن کی آنکھیں تھیں، وقت کی سفاکی تلے اس طرح گریں کہ گویا اس کی بینائی ہی چھن گئی ہو۔ جن دیواروں سے کبھی روشنی چھن چھن کر گزرتی تھی، اب وہاں اندھیرا ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے۔ یہ زوال صرف اینٹوں کا نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک فن، اور ایک خواب کی خاموش موت ہے۔
چنیوٹ کی سرزمین پر ایک قدیم قلعے کے آثار آج بھی ماضی کی گواہی دیتے ہیں۔ روایت ہے کہ سکندر اعظم کی پنجاب پر یلغار کے دوران یہ قلعہ مسمار ہوا، اور پھر وقت کی گرد میں کئی بار اجڑا اور کئی بار بسا۔ انہی کھنڈرات پر مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں نواب وزیر خان نے ایک نیا قلعہ اور شہر تعمیر کیا، جو ‘قلعہ ریختی’ کے نام سے موسوم ہوا۔ آج بھی عمر حیات محل کے روبرو اس قلعے کی ایک شکستہ، مگر سر اٹھائے کھڑی دیوار، گزرے زمانوں کی سرگوشی کرتی ہے۔
چنیوٹ صرف ماضی کی شان و شوکت کا امین نہیں، بلکہ عصرِ حاضر میں بھی اس دھرتی نے ایسے نگینے تراشے ہیں جو قومی منظرنامے پر جگمگا رہے ہیں۔ پاکستان کے مالدار ترین افراد میں شمار ہونے والے میاں منشاء کی جنم بھومی یہی خاکِ چنیوٹ ہے۔ فنونِ لطیفہ میں، اسٹیج اور فلم کے ہنر کے امین ناصر چنیوٹی اسی مٹی کی خوشبو لیے پردۂ اسکرین پر چھائے ہوئے ہیں۔ موسیقی میں ندیم عباس لونے والا، جو عظیم لوک فنکار اللہ دتہ لونے والا کے فرزند ہیں، اپنے والد کی روایت کو نئی دھڑکنوں سے جوڑ رہے ہیں۔ سیاست میں قیصر احمد شیخ کی سنجیدہ آواز اور سید حسن مرتضی کی عوامی ترجمانی چنیوٹ کے فخر کا استعارہ ہیں۔
چنیوٹ کی ایک پہچان “چنیوٹ پکوان سنٹرز” بھی بن چکے ہیں جو لاہور، فیصل آباد اور کراچی جیسے شہروں میں اپنی خوشبو سے دیس کی یاد دلاتے ہیں۔ “چنیوٹی کنہ” تو جیسے ایک ذائقے کا استعارہ بن گیا ہے، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ خود چنیوٹ کے کئی باسی، جن میں میں بھی شامل ہوں، آج تک اصل چنیوٹی کنہ چکھنے کی حسرت دل میں لیے گھومتے ہیں — نہ وہ جگہ معلوم، نہ وہ ذائقہ نصیب!
چنیوٹ ایک شہر نہیں، ایک داستان ہے۔ یہ عشق و حکمت، تجارت و تہذیب، اور تاریخ و تصوف کا ایسا امتزاج ہے جس نے ہر دور میں اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ یہ شہر پتھروں میں بھی دل ڈھونڈ لیتا ہے اور لکڑی میں بھی روح پھونک دیتا ہے۔ چنیوٹ صرف نقش و نگار کی میراث نہیں بلکہ انسانی عظمت، فکری وقار، اور روحانی تسلسل کا نام ہے — ایک مدھم روشنی، جو وقت کی گرد میں بھی کبھی مدھم نہیں ہوتی۔
About Author: Kamran Afzal is a student of International
Relations at University of the Punjab, Lahore.
He can be reached at kamranafzalkalru@gmail.com